This is a shame, because no doubt our religion has been empathetic on giving those a second chance who say they'd, but my objection is that we also have a saying from Hazrat Abu Huraira RA, that مومن ایک بل سے دو بار نہیں ڈستا, which has following description in Urdu,
حدیث کا مقصد اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مومن دانا جو حق و انصاف کا
علم بردار اور دین کا حامی و محافظ ہوتا ہے اس کی شان یہ ہے کہ وہ کسی عہد
شکن اور سرکش سے، جو دین کا دشمن ہے درگزر نہ کرے اللہ کی راہ میں اور
اللہ کی خاطر اس کو اپنے غضب و انتقام کا نشانہ بنانے سے نہ چوکے، بار بار
حلم و بردباری اور چشم پوشی کا رویہ اختیار نہ کرے اور اس کے دھوکہ میں نہ
آئے واضح رہے کہ کسی دنیاوی معاملہ میں فریب کھا جانا زیادہ اہمیت نہیں
رکھتا مگر کسی دین کے معاملہ میں فریب نہ کھانا چاہیے۔علماء نے لکھا ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ ارشاد گرامی میں جس حکیمانہ اصول کی طرف
اشارہ کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک عظیم الشان تعلیم ہے جس کی بنیاد دین
کی رعایت و حمایت اور دشمنان دین کے شر و فساد کی بیخ کنی ہے۔ مذکوہ بالا
ارشاد گرامی کا پس منظر یہ ہے کہ زمانہ رسالت میں عرب کا ایک مشہور شاعر
ابوغرہ تھا اور اس کا تعلق کفار کے اس طبقہ سے تھا جو اسلام، ذات رسالت
پناہ اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عداوت اور سب شتم کے پہاڑ تراشنے پر
مامور تھے چنانچہ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ مسلمانوں کی ہجو کیا کرتا تھا اور
اپنی قوم کے شریر لوگوں کو مسلمانوں کی ایذاء و اہانت پر اکسایا کرتا تھا
جب بدر کے میدان میں حق باطل کے درمیان پہلی معرکہ آرائی ہوئی اور اللہ نے
اپنے مٹھی بھر بندوں کو دشمنان دین پر فتح عطا فرمائی اور مکہ کے بہت سارے
کفار جس میں ان کے زعماء و اساطین بھی تھے قیدی بنا کر مدینہ منورہ لے گئے
تو ان میں وہ بد بخت شاعر ابوغرہ بھی تھا اس نے بارگاہ رسالت میں اپنے
پچھلے سیاہ ناموں پر اظہار ندامت کیا اور عفو خواہی کے ساتھ یہ عہد کیا کہ
اب میں کبھی بھی ایسے افعال بد کے پاس نہیں پھٹکوں گا۔چنانچہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کو اس بد بخت پر رحم و کرم کرنے کا موقع مل گیا اور آپ نے
اس کے عہد و پیمان کی بنیاد پر اس کو رہا کر دیا لیکن اس کی ازلی شفاعت و
بد بختی نے اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور وہ اپنی قوم میں پہنچ کر پہلی
روش پر چلنے لگا یہاں تک کہ اللہ نے اس کو دوبارہ جنگ احد کے موقع پر قیدی
کی حثییت سے بارگاہ رسالت میں پہنچا دیا اس نے اس مرتبہ بھی وہی عہد و
پیمان کا حربہ استعمال کیا اور اظہار ندامت و عفو خواہی کے ساتھ امان چاہنے
لگا اور آئندہ اپنی ان حرکتوں سے باز رہنے کا عہد و پیمان کیا لیکن نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو معاف نہیں کیا اور اس کو جہنم رسید کر
دینے کا حکم فرمایا۔چنانچہ اس کو قتل کر دیا گیا، اس وقت جب بعض لوگوں نے
اس کی سفارش کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اس کو
ایک مرتبہ اور معاف فرما دیا جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔
This is stupidity of our so called social media 'activists' who're/have been busy and using their energy(s) in glorifying tainted players like Umar Akmal, Muhammad Asif who were a great talent but the fact is the chance which mother nature gave to them, they ruined it because of their greed, and even though when Pakistani bleak judiciary stepped up and took action against them, here our so called social 'activists' are/have been glorifying such players to have a complementary PR on the social media medium.
Where is the country and its pride?
One is for sure, there is a big difference and a thick line between forgiveness and forgiving to be inducted into representing the national side is the other direction. We have a very bad habit of using phrases from Holy Quran and احادیث for supporting our arguments, instead of checking our arguments with respect to the Holy Quran and Sunnah, but what I quoted initially, does it gives an idea of utilizing them again who betrayed? If we give chances and glorify the tainted players, what message are we conveying to the sincere players who play with their heart out? Isn't it unfair to them? Isn't Islam talks about their rights as well? Isn't country's pride secondary aspect? I am not saying ban them but don't allow them to wear Pakistani blazer and representing Pakistani colour on international arena is unfair to those players who are playing with sincerity.
No comments:
Post a Comment